مودی حکومت کی ہندو انتہا پسندی کو پروان چڑھانے کی پالیسی نے پورے بھارت کو آگ لگا دی ہے ۔۔ سرکاری سرپرستی میں ہندو انتہا پسند دن دھاڑے مسلمانوں عیسائیوں اور سکھوں پر جسمانی اور ذہنی تشدد میں اس قدر بے باک ہو گئے ہیں کہ اب خود سیکولر بھارت ایک ہندو انتہا پسند ریاست ک کےطور پر نظر آ رہا ہے۔۔۔
اسی سرکاری سرپرستی میں بڑھتی ہندو انتہا پسندی نے اقلیتوں کو اپنے مستقبل سے متعلق پریشان کر دیا ہے ۔۔۔ اور بھارتی یونین سے ٹوٹنے کی آوازین بھارت کی مختلف ریاستوں سے ایک بار پھر سے آنی شروع ہو گئی ہیں۔۔۔
وادی کشمیر جہاں 1947سے بھارت مسلمان کشمیریوں کے آزادی کے حق کو ظلم و ستم سے دبانے کی کوشش کر رہا ہے۔۔ آج بھارت کے ہاتھ سے نکلتا جا رہا ہے جس کی بدولت بھارتی سرکار اور خصوصاً بھارتی آرمی چیف مضحکہ خیز بیانات
دے کر خود کو ہدف تنقید بنا دیا
حال ہی میں بھارتی سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس مارکنڈے کاٹجو نے بھارتی فوج پر طنز کرتے ہوئے لکھا کہ بھارتی فوج کو شاباش جنہوں نے نہتے کشمیریوں کا قتل عام شروع کر رکھا ہے، جیسے جلیاں والا باغ میں کیا گیا اور جیسے یتنام میں خون کی ہولی کھیلی گئی۔ انہوں نے کہا بھارتی فوجی افسران اور فوجیوں کو بھارتی رتنا ایوارڈ سے نوازا جانا چاہئے۔
دوسری طرف پاکستانی حکومت نے کرتار پور کھولنے کا اعلان کر کے بھارتی
حکومت کو سٹپٹا دیا ہے۔۔۔ مودی سرکار اور بھارتی پنجاب کی حکومت پاکستان کی جانب سے سکھ قوم کی خواہشات کے احترام میں کرتار پور کھولنے کے فیصلے پر گھبرا گئی ہے کیونکہ 1980کی دھائی سے سکھوں کے خلاف جاری مہم نے اب ان کے دلوں میں یہ خوف پیدا کر دیا ہے کہ کہیں بھارتی پنجاب بھی مستقبل قریب میں مقبوضہ کشمیر نا بن جائے۔۔۔
اسی گھبراہٹ میں بھارتی پنجاب کی اسمبلی نے ایک مضحکہ خیز قرارداد منظور
کی ہے۔۔پنجاب کی ریاستی اسمبلی نے 14دسمبر کو سکھوں کے روحانی پیشواءبابا گورو نانک کی آخری آرام گاہ واقع کر تا ر پور کا علاقہ بھارت کو دینے کے بدلے میں پاکستان کو 11ہزار ایکڑ ا ر ا ضی دینے کی پیشکش پر مبنی قرارداد کی منظوری دی ہے،پنجاب حکومت ا ب اس پیشکش کو بھارت کی مرکزی حکومت کے سامنے رکھے گی۔
یہ قرار داد بنیادی طور پر سکھ قوم کو دھوکہ دینے کی ایک نیچ کوشش ہے کیونکہ اس عمل کے لئے بھارتی ٓآئین میں ترمیم لانی پڑے گی اور اس کے لئے اکثریت ملنا نا ممکن ہو گا اور ایسی ادل بدل کے لئے اگر پاکستان ،فرض کریں، مان بھی جاتا ہے تو کچھ ایسا ہی پروسیجر پاکستان کو بھی اپنانا پڑے گا۔۔۔
سکھ لیڈر شپ اس بات پر متفق ہے کہ خالصتان اُن کا حق ہے جس کا وعدہ1947میں کانگرس نے آزادی کے وقت کیا تھا۔۔۔ اگر بھارتی پنجاب میں خالصتان تحریک پر تشدد صورت اختیار کر جاتی ہے تو بھارت کے لئے کشمیر سنبھالنا نا ممکن ہو جائے گا کیونکہ ایک جانب بھارتی فوج کی کشمیر میں آپریشنز کا ارتکاز ٹوٹ جائے گا تو دوسری طرف اُس کی پنجاب سے گزرنے والی لائین آف سپلائی اور کمیونیکیشن کو سخت خطرات کا سامنا ہو گا تو تیسری طرف خود بھارتی فوج کے سکھ افسر اور جوان نا قابل بھروسہ ہو جائین گے۔۔اس کے علاوہ کشمیر اور پنجاب میں آزادی کی تحریکین نکسل باغیوں اور سیون سسٹر سٹیٹس کے حُریت پسندوں کو بھی آخری معرکے کے لئے اُکسائیں گی ۔۔ اس مذید یہ کہ اقلیتین جن کا جینا ہندو انتہا پسندون نے مشکل بنا رکھا ہے وہ بھی کھڑی ہو جائین گی جس کے بعد بھارت کا نام صرف تاریخ میں ہی نظر آئے گا۔
بھارت جانتا ہے کہ سکھ قوم آپریشن بلیو سٹار میں ہونے والی سکھ مذہب کی مقدس تریں عبادت گاہ کی بے ہرمتی نہیں بھولے اور نا ہی سکھ نفسیات سے دہلی کا قتل عام اور پنجاب میں انٹرنل سکیورٹی آپریشن کی یاد مٹ سکی ہے جس میں سکھوں کو ریاستی تشدد کا شکار بنایا گیا۔۔۔
No comments:
Post a Comment