چینیوں اور پاکستانیوں میں شادی، قانون سازی کی ضرورت ہے! - Usman Khan Global

Home Top Ad

Responsive Ads Here

Post Top Ad

Your Ad Spot

Friday 5 April 2019

چینیوں اور پاکستانیوں میں شادی، قانون سازی کی ضرورت ہے!


وہ بہت حیران تھا کہ پاکستانی لڑکیاں کیسے چینی مردوں سے شادیاں کر لیتی ہیں؟ حتیٰ کہ چینی مرد بھی عمر، رنگ، ذات پات اور نسل نہیں دیکھتا، بس لڑکی دیکھتا ہے اور شادی کر لیتا ہے۔ میرے دوست کا خیال تھا کہ یہ سی پیک کے ثمرات ہیں اور میرا کہنا تھا کہ نہیں، یہ بس موقعے سے فائدہ اُٹھانا ہے، وہ موقع جو ہم نے خود اپنی عورتوں کو دیا ہے۔
شاید یہ معاملہ ہمارے علم میں آتا ہی نہیں لیکن میڈیا کی مجبوری ہے کہ خبر تو چلانی ہے۔ چینی لڑکوں کی پاکستانی لڑکیوں حتیٰ کہ ادھیڑ عمر لڑکیوں کہ جن کو ہم آنٹی کہتے ہیں، اُن سے بھی شادیوں کی خبریں تواتر سے سننے میں آ رہی ہیں۔ یہ کچھ خبریں ہیں جو رپورٹ ہو رہی ہیں، بہت سی خبریں رپورٹ نہیں ہوتیں۔ ایسا کیوں ہے؟ اس کے دو پہلو ہیں۔
پہلا پہلو تو چین خود ہے۔ چین میں ایک عرصے سے ’’ایک جوڑا، ایک بچہ‘‘ کی پالیسی رائج ہے۔ چین کا کل رقبہ 9.597 ملین مربع کلومیٹر یعنی 95 لاکھ 97 ہزار مربع کلومیٹر ہے۔ 2017 میں اس کی کل آبادی کا تخمینہ 1.386 ارب لگایا گیا تھا۔ دوسری جانب بھارت کی آبادی 1.33 ارب پر مشتمل ہے۔ چین میں کمیونسٹ پارٹی کا راج ہے۔ 2013 سے پہلے تک ایک سے زائد بچہ رکھنے پر حکومت کی جانب سے پابندی عائد تھی۔ اس ایک پابندی نے چین نے خاندان کے نظام کو اُلٹ پلٹ کر رکھ دیا۔ اس سے آبادی تو پھر بھی کنٹرول نہ ہو سکی، شاید اضافے میں کچھ فیصد کی کمی واقع ہوئی ہوگی تاہم اس کے اپنے نقصانا ت بھی ہوئے۔ پہلا نقصان تو یہ ہوا کہ وہاں پر تناسب بگڑ گیا۔ عورتوں اور مردوں کی تعداد میں اچھا خاصا فرق دیکھنے میں آیا۔ اس کے بعد وہاں پر رشتے ختم ہوگئے، چین کی غالباً دو نسلیں حقیقی چچا، ماموں، تایا، پھوپھی کے رشتوں سے ناواقف ہیں کیونکہ جب بچہ ہی ایک ہوگا تو اُس کا حقیقی رشتہ کیا خاک ہوگا؟ اس کے بعد وہاں کی لڑکیاں بھی شادی کے رشتے میں بندھنے کے بجائے سنگل رہنے کو ترجیح دیتی ہیں۔
عمر کے حساب سے اپنی ضرورت کو پورا کرنے کےلیے وہاں کی لڑکیاں ریلیشن شپ قائم کرتی ہیں لیکن شادی کرکے خاندان آباد کرنے کو تیار نہیں ہوتیں۔ یہی وجہ ہے کہ چین میں مردوں کےلیے شادی کرنا ایک بڑا مسئلہ بن گیا۔ اس مسئلے نے وہاں پر شادی کو بھی کاروبار بنا دیا۔ وہاں پر میرج کے دفاتر دیگر ممالک سے لڑکیاں منگوا کر اُن کی چینی لڑکوں سے شادیاں کرواتے تھے۔ چینی مرد اس کام کےلیے ایک طرف دفتر والوں کو بھاری فیس دیتے تھے تو دوسری جانب اُس لڑکی اور اُس کے خاندان کو بھی اچھا خاصا پیسہ دیا جاتا تھا۔ چینی اخبارات میں ماضی میں یہ خبریں بھی دیکھنے میں آئیں کہ بیرون ملک سے شادی کےلیے آئی لڑکی سب کچھ سمیٹ کر اچانک منظر عام سے غائب ہوگئی۔
چین کا ڈیٹا ہمیں یہ بتاتا ہے کہ 1990 سے قبل تک چینی کی کسی اور ملک میں شادی ایک خبر ہوتی تھی کہ ایسا خال خال ہوتا تھا اور 1989 میں تو ایسا شاید ہی ہوتا تھا۔ لیکن 2010 میں یہ شرح دس گنا تک بڑھ چکی تھی۔ چینی مرد فلپائنی عورتوں سے شادی کو ترجیح دیتے تھے اور اس کی ایک وجہ شاید نین نقش کا ایک سا ہونا ہے۔ اس کو ’چی فلا پینو‘ کا نام دیا جاتا تھا۔ اس کے بعد ویت نام، منگولیا، کوریا وغیرہ سے لڑکیاں چینی لڑکوں کےلیے آنے لگی۔ تاہم جب فلپائنی لڑکیوں نے چینی مردوں کو ٹھیک ٹھاک دھوکے دیئے تو انہوں نے مشرقی ایشیا کے علاوہ آپشن بھی استعمال کرنا شروع کیا۔ اس ضمن میں پاکستان، بنگلہ دیش اور کسی حد تک بھارت وجہ انتخاب ٹھہرے۔
2013 میں چین کی حکومت نے ’’فی جوڑا ایک بچہ‘‘ کی پالیسی ختم کردی اور اب ایک خاندان کو دو بچے رکھنے کی اجازت ہے۔ لیکن ابھی اس دو بچے کی نسل کو جوان ہونے میں 14 سال باقی ہیں۔
دوسری جانب پاکستان کی لڑکیاں کیوں چینی لڑکوں سے شادی کر رہی ہیں؟ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ ہم نے اپنے پاکستان میں شادی کو مشکل ہی نہیں بلکہ انتہائی مشکل یا شاید جوئے شیر لانے کے مترادف بنا دیا ہے۔ پہلے بچہ پڑھ لکھ جائے، کچھ کمانے لائق ہوجائے تو پھر گھر والے چاند سی بہو کی تلاش میں نکلتے ہیں۔ پڑھنے لکھنے میں عمر ہوگئی 22 تا 24 سال اور اُس کے بعد بے روزگاری اور سفارش کرکے نوکری لینے میں ایک سے دو سال مزید نکل گئے۔ پہلی نوکری کے بعد چاکری میں تین سے پانچ سال کا عرصہ نکل گیا اور لڑکا پہنچ گیا 29 سے 30 سال میں۔ اب ماں باپ کو فکر ہونا شروع ہوتی ہے کہ بھائی صاحب کی شادی کروا دیں۔
اب جب شادی کےلیے رشتے کی تلاش میں نکلتے ہیں تو پہلی ترجیح ہوتی ہے کہ کسی طرح سے 18، 19 سال کی لڑکی مل جائے۔ دوسری جانب اب لڑکیوں کی بھی ترجیحات ہیں۔
پہلے پڑھائی مکمل ہوگی، پھر جاب ہوگی کیونکہ ظاہر ہے کہ گھر بیٹھنے کےلیے تو نہیں پڑھا ہے ناں! جاب کرنی ہے، کیریئر بنانا ہے اور پھر شادی کا سوچنا ہے۔
اس سارے عمل میں لڑکیاں بھی 29 سے 30 سال کی ہوجاتی ہیں۔ اب اوّل تو رشتے ملتے نہیں؛ اور ملتے ہیں تو بڑی عمر کے لڑکوں کے ملتے ہیں جبکہ اس کے نہ ختم ہونے والے مسائل اور معاملات بھی ہوتے ہیں۔
لڑکوں کے مسائل اپنی جگہ لیکن ہمارے معاشرے میں لڑکیوں کے رشتوں میں مسائل زیادہ ہوتے ہیں۔ غریب گھرانوں کی اکثریت جہیز نہ ہونے کی وجہ سے گھر میں رہ جاتی ہے۔ کہیں رنگ نسل اور ذات پات کا مسئلہ ہوتا ہے اور کہیں خاندانی اسٹیٹس کا فرق نظر آتا ہے۔ یہ تمام تر مسائل شادی میں تاخیر کا باعث تو بنتے ہی ہیں لیکن دوسری جانب اسمارٹ فون اور انٹرنیٹ کے اس دور میں زنا اور بلیک میلنگ کا باعث بھی بنتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ جیسے ہی کوئی چینی، پاکستان میں شادی کی کوشش کرتا ہے تو بیورو والوں کو بھی زیادہ تگ و دو نہیں کرنی پڑتی اور اُنہیں شادی کےلیے راضی لڑکی آسانی سے مل جاتی ہے۔ اب یہ وقت ہی بتائے گا کہ چینی مردوں سے شادی کس حد تک کامیاب یا ناکام ہوتی ہے۔ تاہم اس میں اور مسائل بھی ہیں۔
ایک یہ کہ چینی شادی کےلیے مذہب تو تبدیل کر لیتے ہیں لیکن چونکہ چین میں عملاً کمیونزم ہے لہذا اُن کو دین کی بنیاد کا بھی علم نہیں ہوتا اور زندگی حرام حلال کی تمیز کے بغیر بسر ہونا شروع ہو جاتی ہے۔ دوسری جانب دھوکا دہی بھی ظاہر ہے، ہوتی ہی ہے۔ جو فیلڈ بھی کاروبار کی شکل اختیار کرے گی، اُس میں دھوکا تو ہوگا ہی اور شاید یہ دھوکا یک طرفہ نہیں بلکہ دو طرفہ ہوگا۔
ایک بہت بڑا خطرہ ہیومن اسمگلنگ کا بھی موجود ہے کہ کہیں شادیوں کی آڑ میں یہ کاروبار نہ پروان چڑھ جائے۔ میری معلومات کی حد تک ایسی شادیوں کے حوالے سے کوئی قانون سازی بھی نہیں کہ جو اپنی جگہ ایک مسئلہ ہے۔ گہرائی میں جائیں تو ایسے اور بھی مسائل ہمارے سامنے آسکتے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ ہم ان کے حل کےلیے کیا کر رہے ہیں؟ اب تک ہم نے کچھ بھی نہیں کیا۔ اور ہم کب کریں گے؟ اس کا مجھے معلوم نہیں کیونکہ ہمارے قانون ساز اداروں میں سب کچھ ہو رہا ہے، لیکن قانون سازی نہیں ہو رہی ہے۔

No comments:

Post a Comment

Post Top Ad

Your Ad Spot